اسٹیشن ماسٹر Read Count : 188

Category : Articles

Sub Category : Lifestyle

ناول:اسٹیشن ماسٹر


قلم از: محمد عالیان


قسط نمبر: 1


        ریلوے اسٹیشن کی گہما گہمی اب کافی حد تک تھم چکی تھی. بچے کھچے مسافر جو ابھی گاڑی سے اترے تھے, ٹکٹ دکھا کر گیٹ پاس کرکے اپنی اپنی منازل کی طرف رواں دواں تھے.


          مومن بھی سگریٹ سلگھائے بینچ پر بیٹھا آخری گاڑی کا انتظار کر رہا تھا کہ کب یہ آخری گاڑی گزرے اور وہ پھاٹک بند کرکے کوارٹر میں جائے.


          مومن جو اس چھوٹے سے ریلوے اسٹیشن پر حال ہی میں اسٹیشن ماسٹر کے عہدے پر فائز ہوا تھا. یہ نوکری مومن کو اللہ اللہ کرکے ملی تھی اور وہ یہ جانتا تھا کہ اس دور میں سرکاری نوکری ملنا کسی غنیمت سے کم نہیں. سب سے بڑھ کر یہ بات اس کی تسلی میں اضافہ کر رہی تھی کہ اس کو رہنے کے کیے کوارٹر بھی ریلوے اسٹیشن کے پاس ہی میں الاٹ ہو گیا تھا...


          دسمبر کی یہ خون جما دینے والی رات, وقت تقریبا 11:28 کا....ریلوے لائن کے اس پار لگے نیم کے درخت پر بیٹھے الو کی آواز, کینٹین پر لگا تالا اور کچھ دور موجود ویٹنگ روم کے باہر لٹکی لالٹین سے نکلتی کثیف سی روشنی, یہ سب مناظر مومن کے اکیلے پن کے احساس کو مزید بڑھاوا دے رہا تھا.


          مومن ایک نظر اپنی کلائی پر بندھی گھڑی پر ڈال کر وقت کا جائزہ لیتا اور اگلے ہی لمحے وہ ریلوے لائن کی خاموشیوں میں کھو جاتا...... "یا اللہ! کب 12:05 ہونگے اور کب یہ گاڑی آئے گی", وہ بیٹھا اپنے آپ سے گفتگو کر رہا تھا. اگلے ہی لمحے وہ اپنی موجودہ حالت کا جائزہ لینے کے لیے تصوراتی دنیا میں کھو سا گیا... گھڑی کی ٹک ٹک کرتی سوئی نے آخر کار مومن کے مقرر کردہ وقت کو چھو ہی لیا.


           مومن اپنے ہونٹوں کے گرد سگریٹ کی گرفت کو مضبوط کرتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا اور ہیٹ ٹھیک کرتے ہوئے پھاٹک کی طرف چل دیا... دیکھتے ہی دیکھتے آخر گاڑی پلیٹ فارم کے سینے کو چیرتی ہوئی گزر گئی, مومن نے پھاٹک بند کیا اور کوارٹر کا رستہ پکڑا...


              کوارٹر کا تالا اپنی تھکاوٹ زدہ انگڑائی ایک بے جان انداز میں لیتے ہوئے کھلتا ہے. مومن اپنے اوورکوٹ کی جیب میں کچھ تلاش کرنے لگتا ہے اور دیا سلائی کی ڈبیا ملتے ہی وہ اس کو روشن کرکے دروازے کے ساتھ اندر کی طرف لٹکی ہوئی لالٹین کو شمع بھری زندگی بخشتا ہے.


            کوارٹر کا جائزہ لینے کے لیے وہ دو چار قدم آگے بڑھتا ہے اور اوورکوٹ اتار کر ایک طرف پڑی کرسی پر رکھ دیتا ہے. ہیٹ ٹیبل پر رکھنے کے بعد وہ کرسی پر بیٹھ کر آنکھیں بند کرکے ایک پر سکون ٹھنڈی آہ بھرتا ہے.......«»«»«»«——————»«»«»





قسط نمبر: 2


         آس پاس کے کوارٹرز سے آتی ہوئی دھیمی سی روشنی جو کھڑکی سے اندر آ کر میز پر رینگ رہی تھی.... تھکان اس کے جسم کو گرفتار کر چکی تھی. لحافہ میں گھس کر وہ لیٹا اسے یہ نہ معلوم ہوا کہ اونگھ نے اسے کب آن گھیرا اور ایک پر سکون نیند اس پر طاری ہو گئی. رات گزرتی چلی گئ اور یکے کی دھندھلی سی لالٹین اب شمع کے بجائے تاریکی بکھیرنے لگی...


          کھڑکی کے باہر بیٹھے کوے کی بے سری آواز نے مومن کو نیند کی دنیا سے اٹھا کر حقیقی دنیا میں پھینک دیا. آنکھیں ملتا ہوا بستر سے نکلا اور ایک نظر دیوار پر لگے گھڑیال پر ڈالی... "اوہو, مجھے تو پتہ ہی نہ چلا رات کھانا بھی نہ کھایا" مومن ایک تازہ دم انگڑائی لیتا ہوا خود سے مخاطب ہوا.... چائے کا پانی آگ پر رکھ کر وہ نہانے کی تیاری میں مشغول ہوتا ہے. کام کرنے کے ساتھ ساتھ گزشتہ رات کے خیالات نے بھی اس کے دماغ کو جکڑ لیا تھا....رات کو نیند نہ آنا کتنا تکلیف دہ احساس ہوتا ہے اور جب نیند آ جائے پھر آس پاس کی کچھ خیر خبر نہیں رہتی... یہ احساس اس وقت تو اور بھی شدید ہو جاتا ہے جب جگہ بلکل نئی ہو... یا اس کے الٹ دیکھا  جائے تو اس وقت ہوتا ہے جب انسان دن بھر کی مشقت سے چور چور ہوا ہو... شاید نئی جگہوں کی ابتدائی راتیں اسی طرح بے خوابی سے گزرتی ہونگیں خیر چلو میرے ساتھ بلکل ایسا نہیں ہی...


        مومن تیار ہو کر سر پر ہیٹ سجاتا اسٹیشن کی طرف رواں ہوا. وہاں پہنچ کر اسے احساس ہوا کہ اب ریلوے اسٹیشن کی خاموشیاں ٹوٹ چکی ہیں. اور لوگ پہ در پہ آ رہے ہیں  کچھ لوگ تو ابھی بھی گرم چادروں میں لپٹے بینچ پر سو رہے ہیں.... منے کے ابا: ارے سنتے ہیں, یہ اٹیچی کیس اٹھوا کر ذرا بینچ پر رکھوا دیجئے.... مایا کیا ہو جاوے ہے تجھے بچوں کو تو سنبھال لیا کرو....    لوگوں کی اس قسم کی گفتگو سے ان کی آمدورفت کا اندازہ لگ رہا ہے.


          دیر تک بے سدھ پڑے رہنے کے بعد مومن اب تازہ دم ہے. وہ پر اطمینان قدموں کے ساتھ بکنگ آفس کی طرف بڑھتا ہے. اندر داخل ہو کر گارڈ کو سلام بول کر اسٹیشن ماسٹر جو کہ ہندو ہے, رام رام سے آتاشنا کرنا اب مومن کا روز کا معمول ہے. "اور رمیش صاحب سنائیے مزاج کیسے ہیں?" مومن اسٹیشن ماسٹر سے مخاطب ہوتا ہے. " بھئی ہم تو ٹھیک ہیں! اپنے بارے میں بتائیے" رمیش جوابی سوال کرتا ہے....


مومن: جی ماسٹر صاحب میں بھی بہتر!


رمیش: اچھا سن رے بھیا آج تھارے لیے آرڈر آیا ہے اوپر سے تیرے کو آج ریلوے ٹریننگ سنٹر جانا پڑے ہے...


مومن: ٹھیک ہے جاؤں گا, کچھ کاغزات پہ دستخط بھی کرنے ہیں...


        یہ کہ کر مومن بکنگ آفس چھوڑ کر باہر آتا ہے...اور دروازہ اپنی آواز کے ساتھ بند ہوتا ہے......«»«—»—«—»«»«»—«»«»





قسط نمبر: 3


                   لوگوں کی چہل پہل, سورج کی رفتہ رفتہ ابھرتی کرنیں اور آسمان پر پرندوں کی چہچہاہٹ, مومن کو افسردہ خیالات سے کھینچ لائی تھی اور اب وہ حقیقی دنیا کی طرف مدعو ہو گیا تھا_________وہ جھنڈی بغل میں دبائےہوئے تھا اور جلتی دیا سلائی کو منہ میں پکڑی بیڑی کے قریب لے جاتا پھاٹک کی طرف جا رہا تھا........


                "او ہوہوہووہو.... رات تو مچھروں نے حد ہی کر دی,,,سارا جسم سرخ ہو رہا ہے" وہ اپنے بازو کو کھجاتا دھیمی رفتار سے چل رہا تھا_____پھاٹک کے قریب پہنچ کر وہ ہیٹ کو سر پہ گھماتے ہوئے گاڑی کہ انتظار میں دائیں جانب تک رہا ہے.....


             دور کسی کیڑے کی مانند نظر آتا انجن اور انجن سے نکلتا دھویں نے اسے بمع بوگیوں کے اپنی آمد کی خبر سنا دی....مومن نے آگے بڑھ کر لائن بدل دی اور ٹرین پلیٹ فارم پر رکی___مومن اس منظر کو تک رہا تھا جس میں مسافر اپنے اٹیچی کیس, گٹھڑیاں اور کچھ سامان اٹھائے گاڑی سے اتر رہے تھے اور دوسری طرف لمبی قطار ان لاگوں کی تھی جنہوں نے سوار ہونا تھا_____ہر شخص ایک دوسرے سے پہلے سوار ہونا چاہتا تھا......


           کچھ ہی لمحے میں گاڑی اپنی روانگی کا اعلان کرتی ہے اور مومن بھی چوکس ہو جاتا ہے____گاڑی کو چنبش ہوئی تو مومن نے بھی ہاتھ میں پکڑی سبز جھنڈی کو ہوا میں لہرا دیا, گاڑی سب مناظر کو پیچھے چھوڑتی مومن کے پاس سے گزر گئی....


            نادر نے پھاٹک کھولا اور واپس پلیٹ فارم پر آگیا.... اور آکر بینچ پر بیٹھا پھاٹک کی طرف تکنے لگا_____بیل گاڑیاں, سائیکلیں اور پیدل چلنے والے لوگ پھاٹک عبور کرتے دائیں سے بائیں جاتے دکھائی دے رہے تھے.....


            وقت گزرتا گیا,,, صبح اب دوپہر میں تبدیل ہو چکی تھی, مگر دھند کے باعث صبح, دوپہر اور شام میں فرق ہی نہ نظر آتا_____ لوگوں کی آمدوروانگی اب صبح کی نسبت نہایت کم معلوم ہو رہی تھی. مومن پانچ گاڑیوں کو روانہ کر چکا تھا. اب مومن کے دل میں ہیڈکوارٹر جانے کا خیال آیا اور وہ رمیش کو بتا کر ہیڈ کوارٹر چلا گیا_____


            "ٹک ٹک ٹک ٹک..... کیا میں اندر آ سکتا ہوں¿" مومن نے دفتر کے دروازے پر پہنچ کر سوال کیا.... "Come" اندر سے آواز آئی.... مومن اندر داخل ہوا تو اس نے اندر کے ماحول کو کچھ یوں پایا.....کھڑکی کے پاس پڑی وہ انگیٹھی جس نے اندر کے درجہ حرارت کو بڑھا رکھا تھا,,, میز پر پڑے بڑے بڑے کاغزات کے بنڈل,...چائے کے کپ سے نکلتی دھیمی دھیمی بھاپ اور سامنے کرسی پر بیٹھا ایک ادھیڑ عمر کا شخص جو حلیے اور لہجے کے لحاظ سے انگریز معلعوم ہوتا ہے جس نے حال ہی میں ہندی سیکھی ہو______کیونکہ یہ وہ زمانہ تھا جب سلطنت برطانیہ کے انگریزوں نے برصغیر کی ریاست کو اپنے گھیرے میں لیا ہوا تھا....


           یہی شرف مومن کے لیے کافی تھا کہ اس کو ایسے حالات میں سرکاری نوکری مل گئی تھی کہ جن حالات میں مسلمانوں کو اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھونے پڑ رہے تھے____چونکہ مسلمانوں کی تو ویسے ہی تذلیل ہو رہی تھی تو یہ کہنا بہتر ہوگا کہ یہ ایک سفارشی نوکری ہے,,,,اور ہاں تھا بھی کچھ یوں ہی اس میں کچھ مومن کی اپنی بھاگ دوڑ شامل تھی اور اور کچھ اس کے ماموں جو کہ گاؤں کے چوہدری تھے کی سفارش نے بھی کام چلایا____ وہ بھی انگریزوں کے کام آیا کرتے تھے اور خود بھی ان سے مطلب کے کام نکلوایا کرتے تھے,,,,مومن کی نوکری بھی انہی مطلبی کاموں میں سے ایک تھی....


             "جی میرا تعارف: میں مومن. حال ہی میں گوتمپور ریلوے اسٹیشن پر اسٹیشن ماسٹر کی حیثیت سے تعینات ہوا ہوں" مومن اپنا تعارف الفاظ کے لمبے سطرے میں کروا دیتا ہے....."اچھا تو تم ہو مومن,,,آؤ بیٹھو" افسر کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے...


مومن کرسی پر بیٹھ کردونوں ہاتھوں کی انگلیوں کی کو ایک دوسرے سے منسلک کرتے ہوئے افسر کی طرف متوجہ ہوتا ہے_____"کیسا لگا یہاں آ کر¿" افسر دریافت کرتا ہے.... "جی کافی بہتر" مومن جواب دیتا جا رہا ہے,,,,, وہ شخص کچھ اوراق کا بنڈل مومن کی طرف بڑھاتے ہوئے کہتا ہے"ان پر دستخط کرنے ہونگے"


             مومن کاغزات پکڑ کر قلم اٹھا کر دستخط کرنے شروع کرتا ہے.....افسر نے ایک سنسنی نظر مومن پر ڈالی اور پاس پڑا چائے کا کپ مومن کی طرف بڑھایا مگر اس نے انکار کر دیا....اب وہ شخص مومن کی توجہ اپنی طرف کرواتا ہے جیسے وہ کچھ کہنا چاہتا ہو_____"سنو! میں تم سے ایک بات کرتا ہوں. اور یہ بات کرنا ضروری ہے کیونکہ تمہاری ڈیوٹی اکثر رات کے اوقات میں ہوتی ہے"


         "آپ کہنا کیا چاہ رہے ہیں¿" مومن حسرت بھری نظروں سے اسے دیکھ رہا ہوتا ہے... "رات کو 11 بجے کے بعد کبھی بھی اسٹیشن کے پیچھے موجود اس پرانی خستہ حال ٹینکی کے پاس مت جانا" افسر مومن کو بتاتا ہے....


          مومن کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور وہ کاغزات جن پر وہ دستخط کر چکا ہے افسر کی کے ہاتھ میں تھماتا ہوا بولتا ہے,,," کیا__کیا مطلب ہے آپ کا, ایسا کیا ہے اس جگہ میں جو آپ وہاں جانے سے روک رہے ہیں¿"مومن اب نہایت ہی ہریشان دکھائی دے رہا ہے___ "جتنا کہا ہے بس اتنا کرو, اب تم جا   سکتے ہو" افسر اپنی کہنیوں کو میز سے اٹھا کر کرسی کی کمر سے ٹیک لگاتے ہوا کہتا ہے....


              ایک لمحے وہ افسر کے چہرے کو غور سے تکتا ہے اور پھر اٹھ کر دروازے کی طرف بڑھتا ہے.... دروازہ کھول کر جیسے ہی وہ پہلا قدم باہر نکالتا ہے تو پیچھے سے آواز آتی ہے...." جو کہا ہے اس پر عمل کرنا, دوسری صورت میں تم بھاری نقصان کے ذمہ رار ہوگے"______مومن اس راز کو جاننے کی حسرت دل میں چھپائے واپس ریلوے اسٹیشن کا رستہ اختیار کرتا ہے.... مومن کے دل میں اس پوشیدہ راز کو جاننے کی حسرت صرف اس وقت تک رہی جب تک وہ اسٹیشن نہ پہنچا. وہاں پہنچتے ہی اس کے ذہن سے افسر کی باتیں جو آخری قدموں تک اس کو عجیب لگنے لگی تھیں اب غائب ہو چکی تھیں....ایک لمحے کے لیے تو اس نے یہ گمان کیا کہ یی سب خیالی باتیں ہیں_____ان کا تو کام ہی ہوتا ہے الٹی سیدھی باتیں کرکے لوگوں کے ذہنوں میں فکری تنفس کو مزید بڑھاوا دینا. ویسے بھی یہ محکمہ ان کی ہی ایجاد ہے, سوچتے ہونگے کہ ہر آنے والے نئے شخص کو یہاں سے بھگائیں. خیر جو بھی ہو مجھے کیا میں یہ سب کیوں سوچ رہا ہوں.______ اسٹیشن پر پہنچ کر وہ رمیش کو اپنی آمد سے آگاہ کرکے ڈیوٹی میں مشغول ہو جاتا ہے.........«—»——«»«—»





ناول:اسٹیشن ماسٹر


قلم از: محمد عالیان


قسط نمبر: 4


            افسر کی باتوں نے مومن کے ذہن پر زیادہ اثر تو نہ کیا مگر کسی نہ کسی لمحے افسر کے منہ سے نکلے وہ الفاظ مومن کے کانوں کے قریب سے ہوا کے تیز جھونکے کی مانند گزرتے جس سے اس کا دھیان کام سے ہٹ کر ان باتوں کی طرف مائل ہو جاتا.


           "کیا ہے ایسا اس جگہ میں? وہاں چل کر دیکھنا چاہئیے یا نہیں?"____اس قسم.کے سوالات اس کے ذہن میں جنم لے رہے تھے. "خیر میں جاؤں گا ضرور-----ہاں----ہاں میں جاؤں گا" اس نے سوچا....


           دن ڈھل چکا تھا, پنچھی اب اپنے گھونسلوں کا رخ کر رہے تھے, سورج حسب معمول آسمان پر سرخی بکھیرتا زمین بوس ہوتا نظر آرہا تھا. بادلوں کے پیچھے سے نکلتی اس کی سرخ کرنیں جو آسمٹں پر ایک خوبصورت سماں باندھ رہی تھیں. ایک مزید گاڑی کے آنے کا وقت ہوچکا تھا. اس گاڑی کا گوتمپور ریلوے اسٹیشن پر قیام نہیں ہے. وقت کا اندازہ لگا کر اس نے برگد کے درخت کے ساتھ لٹکی گھنٹی بجا ڈالی. چونکہ گاڑی کا قیام نہ تھا اسی لیے مسافر اسٹیشن پر اکادکا ہی نظر آ رہے تھے. چھوٹا اسٹیشن ہونے کے باعث ایک ہی پلیٹ فارم, دو ہی قلی خدمات سرانجام دیتے اور عملہ بھی مخصوص تھا......


             مومن ایک طرف تو گاڑی کا منتظر تھا اور دوسری جانب ذہن اس کا اس جانب مائل کہ وہ اس بوسیدہ ٹینکی کا محاصرہ کرنے جائے_____مومن کلائی کی گھڑی کی جانب دیکھتا ہے تو گاڑی کی آمد میں پانچ منٹ باقی ہیں. اور یہ پانچ منٹ اس کے لیے پانچ گھنٹوں سے کم نہ لگ رہے تھے. اس کا اندر ٹینکی کے راز کو اپنے اوپر افشاں کرنے کے لیے اکسا رہا ہے....


اس کے ذہن میں یہ أحساس بھی آیا کہ وہ کیوں نہ رمیش سے پوچھے اس کے راز کے بارے میں------مگر اس کو اپنی نوکری خطرے میں پڑتی دکھائی دے رہی تھی اسی لیے اس نے لبوں کو سی لیا. خود ہی سارا معاملہ جاننے کی منصوبہ بندی کی. مومن کو یہ بات بھی اچھی طرح یاد ہے کہ افسر نے اس کو رات 11:00 بجے کے بعد وہاں جانے سے منع کیا تھا, مگر وہ جس طرح ایک طرف اس راز کو کھولنے کے لیے پرجوش تھا اسی طرح اس کے دل میں تھوڑا سا خوف بھی پیدا تھا یہی وجہ تھی کہ اس نے رات گیارہ بجے جانے کے بجائے مغرب کے وقت جانے کی حامی بھری.


            انہی حالٹت کی کشمکش میں کب گاڑی کی آمد اور پھر روانگی ہوگئی اسے پتہ ہی نہ چلا...."مجھے ان باتوں پر زیادہ دھیان نہیں دینا چاہئیے----یہ مجھے کیا ہوتا جا رہا ہے? کام پر زیادہ توجہ دوں تو بہتر ہوگا, خداناخواستہ ذرا سی بھی غفلت سے حادثہ----- نہیں___نہیں____نہیں____نہیں یہ میں کیا سوچ رہا ہوں?" اس نے نے انگلیوں کو پیشانی پر پھیرتے ہوئے سوچا....


          مومن کا ذہن اب بھی ان تفکرات سے خالی نہ ہو پایا, نتیجتأ وہ اب کی بار پھاٹک سے واپس آتے وقت جھنڈی وہیں بھول آیا....اور سیدھا پریشانی کے عالم میں چلتے چلتے اسٹیشن عملے کی نظروں سے بچتے ہوئے اس پرانی خستہ حال ٹینکی کے پاس جا پہنچا.....


           دیکھنے میں وہ پر اسرار منظر پیش کر رہی تھی. مومن لڑکھڑاتے قدموں سے رفتہ رفتہ آگے بڑھتا گیا, یہاں تک کہ وہ اس کے بلکل قریب پہنچ گیا------اس سے پہلے کہ وہ اس کا جائزہ لینے کے لیے مزید ایک قدم زمین کے سے اکھاڑ کر آگے رکھتا, پیچھے سے اس کے کاندھے پر کسی نے ہاتھ رکھ دیا..........


          مومن کے اوسان خطا ہو گئے, وہ یک دم سے اچھلا اور پیچھے دیکھا تھا تو ایک درویش نما انسان, سینے کو چھوتی لمبی داڑھی, سفید بال, اجڑا سا حلیہ ہاتھ, میں لالٹین-----یہ رامو کاکا تھے جو اکثر اوقات مومن کو اسٹیشن کے پاس کہیں نہ کہیں, کبھی نہ کبھی منڈلاتے نظر آ ہی جاتے تھے......


           "ارے چاچا آپ! آپ نے تو میری جان ہی نکال دی" مومن ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے کہتا ہے. "بیٹا جاؤ____جاؤ بیٹا____جاؤ یہاں سے" رامو کاکا نے لرزتی آواز سے کہا. یہ کہہ کر رامو کاکا نے پیر پٹخے اور جنگل کی طرف چل پڑے..... "سنیے! میں آپ سے اس ٹینکی کے بارے میں کچھ پوچھنا چاہتا ہوں" مومن نے اونچی آواز میں کہا.....


       "اگر نہ مانے تو وہ سب بتادے گی____سب بتادے گی_____جاؤ یہاں سے" رامو کاکا نے پیچھے مڑے بغیر جواب دیا. یہ کہتے ہی رامو کاکا کے قدم تیز ہو جاتے ہیں.......اور کچھ ہی لمحے میں وہ یوں غائب ہو جاتے ہیں جیسے ان کو زمین نے کھا لیا یا آسماں نے نگل لیا. مومن یہ سب کھڑا دیکھ رہا تھا......مومن نے ایک سنسنی نظر ٹینکی پر ڈالی اور وہاں سے الٹے قدموں چل دیا. حسب معمول مومن نے بیڑی نکال کر منہ سے لگائی اور پلیٹ فارم سے گزر کر انٹر کلاس ویٹنگ روم میں جا بیٹھا. شام اب رات میں بدل رہی تھی اور ہوا اپنے زوروشور سے چل رہی تھی. ٹھنڈ میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا. نہ جانے کیوں مومن کے دل میں بےچینی کے ساتھ اس کی آنکھوں میں خفگی امڈ آئی تھی. وہ اٹھا اور ویٹنگ روم میں لگے گھڑیال پر نظر ڈالتا باہر نکل کر پلیٹ فارم پر آگیا.


          "مومن-----مومن-----مومن, سن رے بھیا! کل سے تھاری ڈیوٹی کی شفٹ بدل گیو ہے. اب شوم چھ سے صبح سات تک ڈیوٹی ہوگیو ہے..." رمیش پیچھے سے مومن کی طرف تیز قدموں سے بڑھتا ہوا اس کو آگاہ کر رہا ہے..... "ہوں----ٹھیک ہے  تو پھر کل سے دن کے وقت نیند لینی پڑے گی" مومن بایاں ہاتھ اوورکوٹ کی جیب میں ڈالتے ہوئے کہتا ہے. "تھارے کو اب اکیلے رہنا پڑے ہے رات کو, اور ذرا احتیاط کیجیو" رمیش مومن کے کاندھے پر گرم جوشی سے ہاتھ رکھتے ہوئے اسے آگاہ کرتا ہے......


          یہ سن کر مومن کی آنکھوں میں وحشت سی آگئی, اس کے لب کھل گئے اور ہونٹوں میں جکڑی جلتی ہوئی بیڑی زمین پر آگری___________«»«»—«—»«—»

Comments

  • No Comments
Log Out?

Are you sure you want to log out?