خوفِ عشق پہلی قسط ۔۔ پہلا حصہ%D Read Count : 178

Category : Books-Fiction

Sub Category : Drama
محسن کی نگاہیں کسی کے حسن کو ماپنے کا پیمانہ تو نہیں مگر پھر بھی ناجانے کیوں وہ اس کے دل کو بھا سی گئی۔
کچھ دیر بعد اس کی نگاہیں محسن کے چہرے سے ہٹی  نظروں کے تعاقب نے اسے پتایا کہ وہ کیا چاہتی ہے۔محسن نے جھٹ سے اس کا ہاتھ چھوڑا اور معزرت خواہ لہجے میں فقط سر پی ہلایا الفاظ تو جیسے ختم ہی ہوچکے تھے۔
""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""
محسن فطرتاًبزذل انسان تھا۔وہ ڈر کی وجہ سے وہ کام کرتا تھا جو اسے پسند نہیں اور اسکے ناپسندیدہ کاموں میں پڑھائی سرفہرست تھی مگر گھر والوں اور اساتذہ کے خوف کی وجہ سے اتنا پڑھ لیتا کہ پوزیشن آجاتی مگر وہ ہی جانتا تھا کہ وہ بس کام بھگتانے والا کام کر رہا ہوں۔کالج کی زندگی سکول سے بلکل مختلف تھی۔مگر یہاں بھی اسے وہی ڈر تھا۔اور اس ڈر کی وجہ سے اس نے ضلع بھر میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔
اور یہ اسی ڈر کی مہربانی تھی کہ فائزہ اس سے فرسٹ ائیر کے نوٹس لینے آپہنچی تھی۔اور بھی بہت سے لڑکے لڑکیوں نے اس سے نوٹس لے کر کاپی کروائے تھے۔
مگر فائزہ کو دیکھتے ہی ناجانے کیوں اسکے دل کی دھڑکنیں تیز ہوگئی تھی۔
اس نے محسن کی طرف ہاتھ بڑھایا۔وہ شاید ہائی سوسائٹی سے تعلق رکھتی تھی جہاں لڑکے لڑکیوں کا آپسی مصافحہ کوئی بڑی بات نہ تھی۔ محسن کے لیے شاید یہ بڑی بات تھی۔مگر ناجانے کیوں  اس جیسے ڈرپوک انسان نے فائزہ کا ہاتھ تھام لیا۔
اسی دن سے محسن کی زندگی بدل گئی۔
آگے کا احوال محسن کی زبانی۔
آج اتوار تھا اور میں بوجہ ڈر کتاب ہاتھ میں لیے بیٹھا تھا۔مگر میرا ذہن کہیں اور ہی اٹکا تھا۔میں اپنے ہاتھوں پر اس کے ہاتھوں کا لمس ابھی تک محسوس کر رہا تھا۔
میں انہی خیالوں میں گم تھا کہ ڈور بیل منے مجھے چونکا دیا۔
محسن بیٹا ذرا دیکھنا کون آیا ہے۔
امی نے واشنگ مشین کے اندر کپڑے ڈالتے ہوئے کہا آج اتوار تھا اس لیے امی کپڑے دھو رہی تھیں۔
میں گیٹ کی طرف بڑھ گیا۔جیسے ہی میں نے گیٹ کھولا۔مجھے ہارٹ اٹیک ہوتے ہوتے رہ گیا۔
وہ فائزہ تھی۔
میرے منہ سے فقط اتنا ہی نکلا 
آپ۔
وہ آپ نے کہا تھا کہ کل میں نوٹس لے آؤں گا مگر مجھے آج ہی ضرورت تھے میں نے اسائنمنٹس سبمٹ کروانی ہے اس لیے اگرآپ ابھی مجھے دیں دے۔تو آپ کی بہت نوازش ہوگی۔
میں اس کی آواز کے سحر میں کھو ہی جاتا کہ
۔امی کی آواز نے مجھے چونکا دیا۔کون ہے بیٹا

امی میرے کالج سے ایک لڑکی آئی ہے۔نوٹس لینے۔میں نے جواب دیا اور پھر بمشکل فائزہ سے مخاطب ہوا اس بار بھی میرے میں سے مختصر سا جملہ ہی نکلا۔
ایک منٹ۔
میں تیزی سے اندر گیا اور نوٹس نکال لایا اور فائزہ کے حوالے کردیے۔میرے پاتھوں کی لرزش دیکھ کر وہ زیر لب مسکرائی اور پھر 
تھینکس کہہ کر وہاں سے چلی گئی۔
میرے دل کی دھڑکنیں کافی حد تک تیز تھی۔
ڈر اور لطف کا ملا جلا احساس مجھ پر حاوی تھا۔یہ ڈر میرے لاشعور میں تھا۔اور پھر یہ معاملہ بھی بہت نازک تھا۔مجھے اچھی طرح معلوم ہے اگر والد صاحب کو میرے ارادوں کی بھنک لگ گئی تو انہوں نے میرے ٹکڑے لر دینے ہیں۔اور جیسا کہ میں اوپر بیان کر چکا ہوں کہ میں فطرتاً ایک بزدل انسان ہوں۔
خیر اگلے تین دن مجھے فائزہ کالج میں کہیں نظر نہیں آئی۔
میرے ذہن میں بہت سے وسوسے اٹھنے لگے
یااللہ خیر میرے دل سے خود بخود دعا نکلی۔
اب کس سے پوچھوں اس کے بارے میں
پھر یکایک میرے ذہن میں ایک خیال آیا اور میں نے اپنی عقل پر ماتم کرلیا
وہ میرے گھر نوٹس لینے آئی تھی ۔یعنی وہ میرے آس پڑوس میں ہی کہیں رہتی تھی۔اور اگر میں اس دن تھوڑی ہمت کرتا تو مجھے پتہ چل جاتا کہ وہ کہاں رہتی ہے۔
مجھے رہ رہ کر اپنی حماقت اور بزدلی پر غصہ آرہا تھا۔
ان دو دنوں میں میرا من کہیں نہیں لگا اہسا لگتا تھا کوئی بہت ہی قمیتی متاع مجھ سے گم گئی ہے۔
چوتھےدن وہ مجھے کالج کیفیٹیریا میں نظرآئی۔
میں اپنی ساری ہمتیں قوتیں اور حوصلوں کو جمع کر کے اس کی طرف بڑھا۔
میں نے خود پر قابو پانے کی پوری کوشش کی۔
ہیلو فائزہ ۔میں اس کے قریب پہمچ کر بولا ۔
اس نے میری جانب دیکھا ارے آپ کیسے ہیں آپ۔
میں ٹھیک آپ سنائیں کہاں رہیں اتنے دن۔
اس نے کاونٹر پر سے چاٹ کی پلیٹ اٹھائی اور ایک میز کی جانب بڑھ گئی۔
میز کےپاس پہنچ کر اس نے پلیٹ میز پر رکھی اور پھر میری طرف دیکھتےہوئے  دلربا اندازمیں  بولی 
کیوں میری یاد آرہی تھی۔؟
مجھے یوں لگا جیسے میرے پیروں کے نیچے سے کسی نے زمین کھینچ لی پو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈر اورمحبت کی اس داستان کا احوال پہلی قسط کے دوسرے حصے میں پڑھیے جو ان شا اللہ پچیس دسمبر بروز اتوارکو پوسٹ کیا جائے گا

Comments

  • No Comments
Log Out?

Are you sure you want to log out?